سن اشاعت: 2022 (بار اول)
تصویری خاکہ: مُنذر احمد
انتساب
شمیم آزرؔ
جملہ حقوق بحق مصنف
خواب خواب اندیشے
نام کتاب: خواب خواب اندیشے
شاعر: ڈاکٹر شمیم آزرؔ
کمپوزنگ: بلال احمد (0305-2010273)
کان ناک اور حلق سے سروکار رکھنے والے ڈاکٹر شمیم احمد خان کی کایا پلٹی تو دل کی مجاوری کرنے لگے، پھر مت ماری گئی توآزری پر اتر آئے اور صنم تراشی شاعری تک لے گئی۔
آزری، براہیمی، پیغمبری، اور شاعری کے نامعلوم رشتے میں بندھی شاعری غیر محسوس طریقے سے زندگی کو ٹٹولتی، جھیلتی اور پایانِ کار غیر مشروط انداز میں اسے پیار کرنے لگتی ہے۔ خواب اور اندیشے کی کشمکش میں عزتِ سادات کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔
صناعی کو زندگی کے ہر شعبے میں دخل ہے۔ چنانچہ صناعی شاعری میں بھی دخیل ہے کہ صناعی ایک ترتیب اور جمالیاتی حس کا تقاضہ کرتی ہے۔
شمیم آزر کی شاعری میں اگر صناعی ہے تو اسی حد تک ہے۔ اُن کی شاعری اپنی اندرونی ساخت، آہنگ، توانائی، اور فکر و فن سے عبارت ہے۔یہ آواز دل سے نکلتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے۔ اس میں کہیں کوئی کھوٹ کہیں کوئی ملاوٹ نہیں۔ ’’خواب خواب اندیشے‘‘ کے امتیازات میں ان محاسن سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔
شمیم آزر سے میرے تعلقات کی کڑی کا حلقہ اس خطہء ارض سے مربوط ہے جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے اگرچہ وہاں سے منسوب نقوش بتدریج مدھم پڑتے جارہے ہیں۔اُن سے اصل ملاقات اور تخلیقی ادب کے سلسلے کینیڈا میں شروع ہوئے جہاں ان سے مانٹریال کی ایک ادبی مجلس میں اتفاقیہ طور پر آمنا سامنا ہوا اورپھرمکڑیوں کے جالے کے آرپار سے شناسائیوں کی واضح شکل برآمد ہوتی گئی۔ معلوم ہوا کہ وہ یہاں نووارد ہیں اور مانٹریال کی مشہورِ زمانہ میکگل (McGill )یونیورسیٹی میںاضافی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اس کا بھی پتا چلا کہ وہ نہ صرف تربیت یافتہ ادبی ذوق رکھتے ہیں بلکہ ادب سے اُن کا تخلیقی رشتہ بھی ہے جس کی استواری کے اسرار و رموز واضح طور پرآشکار ہوئے۔پھر ’اور کھل جائیں گے دوچار ملاقاتوں میں‘ کا سلسلہ چل نکلا۔
ادب میں مسیحاؤں کی عملداری رہی ہے۔
حکیم مومن خاں مومن ،اردو غزل کے عمائدین میں سے ایک ،ذوق اور غالب کے ہم عصر تھے۔ وہ اپنے وقت کے جیّد طبیب تھے۔کچھ ذاتی حوالوں کے بغیر بات نہیں بنتی۔
بھاگلپور میں ڈاکٹر غیاث اثر ، ایم بی بی ایس،اچھے غزلگو تھے جن کی تخلیقات میں نے ماہنامہ شاعر بمبئی میں چھپی دیکھی تھیں۔ وہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا۔مظفرپور کے ڈاکٹر ظفر حمیدی کئی شعری مجموعوں کے خالق تھے۔پٹنہ کے ارمان نجمی اور حیدرآباد دکن کے عابد معز خاصی معروف ہستیاں ہیں۔کینیڈا میں خالد سہیل، سید تقی عابدی، اور بلند اقبال، نیز یو ایس اے میں فیروز عالم اور عبدالرحمٰن عبدنامور مصنفین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ابرار احمد، شیر شاہ سید، حسن منظر، اور آصف فرخی جیسے اکابرینِ ادب بھی اسی قبیلے سے وابستہ ہیں یا تھے۔ درجنوں نام لئے جا سکتے ہیں لیکن یہاں فہرست سازی مقصود نہیں ۔ اس پیشے سے منسلک ہستیاں کچھ زیادہ ہی انسانیت کے دکھ درد کا ادراک رکھتی ہیں۔ طبیب مریض کے ابتلا سے ہی واقف نہیں ہوتا بلکہ اسے جسم کے اندر کے امکانی عوامل کی بھی خبر ہوتی ہے۔آگہی کے کرب کا امین ہونا آسان کام نہیں۔
کتاب کے سرسری مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شمیم آزر نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور اپنے شب و روز سے عاشقانہ انداز میں ٹوٹ کر محبت بھی کی ہے۔ اُن کے ہاں عشق کی ابتدائی واردات کی بازگشت، اپنے شہر اور وطن سے محبت، وطن کی بربادی ، شکست و ریخت، اور کشت و خون کے مظاہروں کے متوازی ،اقدار کی پامالی کا نوحہ ایک زیریں لہر کی طرح موجود ہے۔ان کی نظمیں پابند اور آزاد بھی ہیں اور نثری بھی، نیز ان کی غزلوں سمیت پوری شاعری میں لفظیات کی تازہ کاری کے ساتھ ساتھ ایک داخلی کرب کا سراغ ملتا ہے جو ’’خواب خواب اندیشے‘‘ کی بُنَت میں تارِ پیراہن کے مترادف ہے۔
ہجرت ہماری نسل کا مقدر رہی ہے۔
شمیم آزر مشرقی پاکستان، کراچی، ملیشیا، مانٹریال،اور ٹورنٹوکی خاک چھانتے ہوئے اب جزیرہ صبا کی یونیورسیٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہجرت سے وابستہ موضوعات کو شمیم آزر نے خلاقانہ رنگ دے کر ان میں اپنی کلغیاں لگائی ہیں۔انگریزی کا ایک لفظ nostalgiaدو یونانی الفاظ nostos (گھر واپسی) اور algos (کرب، دکھ، درد) کا مرکب ہے۔ وطن سے دور رہ کر وطن کی یاد میں سوگوارانہ گھر واپسی کی خلش میں مبتلا رہنا ایک مستقل موضوع ہے جس کے لئے مغرب میں ہومر (Homer) کی اوڈیسی (odyssey) اور الیڈ (iliad) کی مثال ذہن میں فوراً در آتی ہے۔ تجزیہ کاروں نے ثابت کیا ہے کہ ہومر سے منسوب یہ شاہکار کسی ایک شخص کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط مختلف اشخاص کی کاوش کا نتیجہ ہے جو قصے کے تسلسل میں پیوندکاری کرتے رہے تھے ۔اردو میں’ غربت‘ کی اصطلاح وجودیت کے اسی کرب کا اشاریہ ہے۔فارسی میں غالب نے’’غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد‘‘ لکھ کر اپنے دکھ کا رونا رویا ہے۔شمیم آزر کے ہاں دھوپ چھاؤں کی سی کیفیت نے اس رنگ کو دل آویزی دی ہے۔
This website uses cookies to improve your experience. By using this website you agree to our Data Protection Policy.